طبقاتِ کتب حدیث اور

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ

 

از: ڈاکٹر محمد سلیم قاسمی                          

‏ ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہٴ دینیات، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

 

اس زمانہ میں احکام اور حدیثِ نبوی کو جاننے کے لیے بجز اس کے کوئی راہ نہیں کہ فن حدیث میں لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ آج ایسی کوئی روایت موجود نہیں، جو قابلِ اعتماد ہو اور وہ حدیث کی کتابوں میں نہ آگئی ہو؛ اس لیے اب معرفتِ حدیث کا مدار کتبِ حدیث پر ہے، کتبِ حدیث مختلف مراتب کی ہیں، سب ایک درجہ اورایک مرتبہ کی نہیں؛ بلکہ حدیثیں جمع کرنے والوں میں بعض کا مقصد صرف صحیح حدیثوں کا انتخاب تھا، جیسے صحیح بخاری وصحیح مسلم اور بعض کا مقصد حدیث کے ساتھ مستدلاتِ فقہاء کو جمع کرنا تھا، جیسے سنن ترمذی اور بعض کا مقصد جملہ روایات کو جمع کرنا تھا، خواہ وہ کیسی بھی ہوں، جیسے مسند ابویعلی، مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ۔ ایسی صورت میں ان احادیث سے مسئلہ مسائل اخذ کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہوجاتا ہے کہ کون سی کتاب کس پایہ کی ہے اور اس پر اعتماد کس حد تک کیا جاسکتا ہے۔ یعنی مسئلہ مسائل صرف صحیح اور حسن درجہ کی روایات سے معلوم کیے جاسکتے ہیں؛ جب کہ فضائل ووعظ ونصیحت اور ترغیب وترہیب کے لیے ان روایات کو بھی بیان کیا جاسکتا ہے جو از قبیلِ ضعیف ہیں؛ جب کہ موضوع روایت کو کسی بھی دینی مقصد کے لیے بیان کرنا جائز نہیں۔

          حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے کتبِ حدیث کو صحت وشہرت کی بنیاد پر چار طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں طبقہٴ اولیٰ کی وہ کتاب ہے جس میں صحت وشہرت دونوں باتیں کامل طورپر پائی جائیں اور ان دو صفات میں جتنی کمی ہوگی، اس کتاب کا مقام ومرتبہ بھی اسی مناسبت سے فروتر ہوگا اوراگر یہ دونوں باتیں کسی کتاب میں بالکل نہ ہوں تو وہ کتاب قابلِ اعتبار نہیں۔

صحت:

          صحت کا مطلب یہ ہے کہ کتاب میں درج روایات اعلیٰ درجے کی ہوں، مقلوب، شاذ اور ضعیف روایات کو کتاب میں جگہ نہ دی گئی ہو اور اگر کوئی روایت ہوبھی تو اس کا حال بیان کردیاگیا ہو۔ ان میں سب سے پہلے متواترروایات ہیں، جن کو امت نے قبول کیاہو اور ان پر عمل بھی کیاہو۔ متواتر کی دو قسمیں ہیں: (۱) لفظاً جیسے پورا قرآن تواترِ لفظی ہے۔ اسی طرح احادیث کا بھی ایک حصہ تواتر سے ثابت ہے، گوکہ وہ بہت کم ہے، ایسی روایات کی تعداد علامہ سیوطی کے مطابق ۱۱۲ ہے، جیسے یہ روایت کہ تم عنقریب اپنے رب کو دیکھوگے، جس طرح چاند کو دیکھتے ہو کہ اس کے دیکھنے میں کوئی بھیڑ نہیں کرتے۔ (۲) متواتر کی دوسری قسم معناً ہے، جیسے طہارت، نماز، زکوٰة اورحج، بیع وشراء، نکاح اور غزوات کے بہت سے احکام معناً متواتر ہیں۔ ان مسائل میں اسلامی فرقوں میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔

          متواتر کے بعد غیرمتواتر وآحاد کا درجہ ہے، یہ بہت بڑی تعداد میں ہیں اور مختلف درجات کی ہیں۔ ان میں اعلیٰ درجہ مستفیض (مشہور) روایات کا ہے۔ مستفیض وہ حدیث کہلاتی ہے جس کو آں حضرت … سے تین یا زیادہ صحابہ نے روایت کیا ہو، پھر پانچویں طبقہ تک رواة برابر بڑھتے رہے ہوں۔ ذخیرئہ حدیث میں مستفیض روایات بہت ہیں اورانھیں پرفقہ کے اہم مسائل کی بنیاد قائم ہے۔

          اس کے بعد ان احادیث کا درجہ ہے جن کو حفاظِ حدیث اور اکابر محدثین نے صحیح یا حسن تسلیم کیا ہو اور وہ کوئی ایسا متروک قول نہ ہو جس کو امت میں سے کسی نے نہ لیاہو۔ پھر ان احادیث کا مرتبہ ہے جو متکلم فیہ ہیں۔ یعنی ان کی سند کو بعض محدثین نے قبول کیا ہو اور بعض نے قبول نہیں کیا۔ یہ روایات اگر شواہد ومتابعات کے ساتھ، یا اکثر اہلِ علم کے قول کے ساتھ، یا عقلِ صریح - یعنی اجتہاد- کی موافقت کے ساتھ موٴیّد ہوں تو ان پر عمل واجب ہے۔

ساقط الاعتبار روایات:

          یعنی موضوع، منقطع، مقلوب الاسناد، مقلوب المتن یا مجہول رُوات کی روایات۔ یہ سب روایات مردود ہیں، ان کو قبول کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔

شہرت:

          شہرت کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب میں درج روایات ایسی ہوں جو مصنف کی کتاب کی تصنیف سے پہلے اور بعد میں محدثین کی زبانوں پر دائر وسائر رہی ہوں اوراپنی جوامع ومسانید میں درج کیا ہو اور ان کی روایت وحفاظت میں مشغول رہے ہوں۔ ان روایات کی مبہم باتوں کی وضاحت کی ہو اوراس کے مشکل کلمات کے معانی بیان کیے گئے ہوں۔ اس کی پیچیدہ عبارتوں کی ترکیب کی ہو۔ ان حدیثوں کی تخریج کی ہو اور ان سے مسائل مستنبط کیے ہوں۔ راویوں کے حالات کی تفتیش ہر زمانہ میں ہوتی رہی ہو اور مصنف سے پہلے اور بعد میں بھی ناقدینِ حدیث نے ان روایات میں مصنف کی رائے میں موافقت کی ہو اور ان روایات کی صحت کا فیصلہ کیا ہو اور انھوں نے مدح وتوصیف کے ساتھ اس کتاب کا استقبال کیا ہو اور فقہاء برابر اس کی حدیثوں سے مسائل کا استخراج کرتے رہے ہوں اور محدثین نے اس کتاب پر بھروسہ کیا ہو اور عوام بھی ان روایات کی عقیدت اور تعظیم سے خالی نہ ہوں۔

          جب یہ دونوں باتیں - صحت وشہرت - کسی کتاب میں کامل طور پر جمع ہوجائیں تو وہ کتاب طبقہٴ اولیٰ میں شمار ہوں گی اور ان میں جتنی کمی ہوگی مقام ومرتبہ بھی ان کا اتنافروتر ہوگا اوراگر یہ دونوں باتیں کسی کتاب میں بالکل نہ پائی جائیں تو وہ کتاب قابلِ اعتبار نہیں۔

          شرائطِ صحت وشہرت کی کسوٹی پر پوری اترنے والی حضرت شاہ ولی اللہ کے نزدیک طبقہٴ اولیٰ کی کتابیں تین ہیں ان میں پہلے مقام پر موطا امام مالک ہے۔ اس کے بعد امام بخاری ومسلم کی صحاح ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:

          ”قد اتفق اہل الحدیث علی ان جمیع ما فیہ صحیح علی رایٴ مالک ومن وافقہ، واما علی رایٴ غیرہ فلیس فیہ مرسل ولا منقطع الّا وقد اتصل السند بہ من طرق أخریٰ فلا جرم أنھا صحیحة من ھٰذا الوجہ“(۱)

(محدثین نے اس بات پر اتفاق کیاہے کہ وہ تمام روایات جو موطا میں ہیں، صحیح ہیں۔ امام مالک اور ان کے موافقین کی رائے کے مطابق تو یہ بات ظاہر ہے اور دوسرے حضرات کی رائے کے مطابق اس طرح صحیح ہیں کہ اس کی تمام مرسل ومنقطع روایات دوسری سندوں سے متصل ہوگئی ہیں؛ لہٰذا وہ بھی صحیح ہیں۔)

          اس کی تفصیل یہ ہے کہ موطا میں تین طرح کی روایات ہیں:(۱) مسند (۲) مرسل (۳) بلاغات۔ متقدمین مسند کے سوا سب کو مرسل کہتے ہیں اور مرسل روایات کی حجیت میں اختلاف ہے۔ امام مالک اوران کے زمانہ کے دوسرے ائمہ، جیسے حسن بصری، سفیان بن عیینہ اور امام ابوحنیفہ حجت مانتے ہیں۔ حسن بصری سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: ”اذا اجتمع اربعة من الصحابة علی حدیث ارسلتہ“(۲) (جب صحابہ میں چار لوگ کسی حدیث پر جمع ہوجائیں تو اسے مرسل رکھتاہوں)۔

          حسن بصری ہی سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب میں تم سے کہوں کہ مجھ سے بیان کیا فلاں نے تو وہ حدیث ہے اور کچھ نہیں اور جب میں کہوں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو میں نے اسے ۷۰ یا اس سے زیادہ لوگوں سے سنا ہے۔(۳)

          اس طرح دوسری صدی ہجری کے اواخر تک تمام ائمہ متفقہ طورپر مرسل روایات کو قبول کرتے تھے۔ حافظ بلقینی نے فرمایا:

          ”ان التابعین أجمعوا بأمرھم علی قبول المراسیلِ ولم یأت عنھم انکارہ ولا عن أحد من الأئمة بعدھم الی رأس المئین“(۴)

(تمام تابعین متفقہ طور پر مرسل روایات کو قبول کرتے تھے؛ بلکہ تابعین کے بعد بھی دوسری صدی ہجری تک ائمہ میں سے کسی کی طرف سے مراسیل قبول کرنے سے انکار ثابت نہیں)

          مرسل روایات کو ضعیف اور ناقابلِ احتجاج قرار دینے والوں میں سب سے پہلے امام شافعی ہیں(۵)، اس کے بعد تمام محدثین کا اس سے ترکِ احتجاج پر اتفاق ہوگیا؛ لیکن دوسری صدی کے اختتام سے پہلے پہلے تمام ائمہ ومحدثین مرسل روایات کو قبول کرتے تھے، خود امام شافعی کبارِ تابعین کی مراسلات کو قبول کرتے تھے، بشرطے کہ ان کی تائید دوسری حدیث وسند سے ہوجاتی۔ جہاں تک موطا میں درج مرسل روایات اوراس کی صحت کی بات ہے ، خود امام شافعی سے منقول ہے، انھوں نے فرمایا: ”أصحُّ الکتاب بعد کتاب اللہ موطا امام مالک“(۶) (کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب موطا مالک ہے)

          موطا کی تمام مرسل روایات کی سندیں چونکہ دوسری کتابوں میں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے اس پر صحیح کا اطلاق درست ہے۔ امام زرقانی لکھتے ہیں:

          ”ما من مرسل فی الموطا الاّ ولہ عاضد أو عواضد فالصواب اطلاق الموطا صحیح لا یستثنیٰ منہ شيء وقد صنف ابن عبد البر کتابا فی وصل ما فی الموطا من المرسل والمنقطع والمعضل قال وجمیع ما فیہ من قولہ بلغنی ومن قولہ عن الثقة عندہ مما لم یسندہ أحد وستون کلھا مسند من غیر طریق مالک الاّ أربعة“(۷)

(موطا میں کوئی روایت مرسل نہیں؛ مگر اس کی تائیں کرنے والے اور معاون حدیث موجود ہے؛ لہٰذا بلا استثناء موطا پر صحیح کا اطلاق درست ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے ایک کتاب تصنیف کی جس میں موطا کی تمام مرسل، منقطع اور معضل روایات کی سندیں بیان کی ہیں اور فرمایا کہ موطا میں امام مالک نے جس قدر ”بلغنی“ اور ”عن الثقة“ کہہ کر روایات بیان کی ہیں اور ان کی سندیں نہیں بیان کیں وہ کل ۶۱ ہیں، جن میں سوائے چار کے تمام روایات امام مالک کے علاوہ دوسرے طرق سے مسند ہیں)

          حضرت شاہ صاحب نے المصفّٰی (فارسی شرح موطا) میں ان چار کے بارے میں فرمایاکہ گرچہ ان الفاظ سے ثابت نہیں، تاہم ان کے معنی صحیح ہیں۔

          حضرت شاہ صاحب نے موطا کی افضلیت ثابت کرنے کے لیے کئی ٹھوس دلائل دیے ہیں: ایک یہ کہ موطا کی احادیث کی اسناد میں راویوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ وہ تین چار سے زیادہ نہیں۔ دوم یہ کہ اس کے بیشتر راوی (۹۵ راویوں میں ماسوا چھ کے تمام کے تمام راوی) مدنی ہیں، جو سب کے سب معروف ومشہور ہیں۔ ان راویوں میں سب سے زیادہ روایات امام مالک نے حضرت نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر سے نقل کی ہیں۔ محدثین کے یہاں یہ سند اصح الاسانید یا سلسلة الذہب کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت نافع کے علاوہ دوسرے راویوں میں زیادہ تر ایسے راوی ہیں، جو حضرت عمر کے قضایا اور فتاویٰ کے سب سے بڑے عالم تھے، جن پر مذاہبِ فقہ کا دارومدار ہے۔ موطا نہ صرف ان فقہاء کرام کا عظیم ذخیرہ ہے؛ بلکہ دوسرے محدث وفقیہ صحابہٴ کرام وتابعین کے فتاویٰ کا مخزن بھی، موسمِ حج ہو یا اس کے سوا، ہر زمانے میں تمام ممالک سے علماء ومحدثین مدینہ منورہ آتے تھے اور وہاں کے علماء سے اکتسابِ فیض کرتے تھے۔ اس زمانہ میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ جو علوم علماء واہلِ مدینہ کے پاس ہیں وہ منقح ہیں، جو دوسرے شہر اور علماء کے پاس نہیں۔ امام مالک نے اسی شہر ’روح البلاد‘ میں رہ کر ہی موطا کی تالیف کی۔

          اس کے علاوہ موطا کی اور بھی خوبیاں ہیں، مثلاً یہ کہ اس کی تمام روایات عمل اہل مدینہ کی ترجمان ہیں؛ کیونکہ قبولیت حدیث کے لیے امام مالک کے یہاں یہ ضروری تھا کہ وہ جمہور اہل مدینہ کے عمل کے خلاف نہ ہو۔ محمد ابوزہو لکھتے ہیں: ”فاشترط الامام مالک فی قبول خبر الواحد أن لا یعمل علی خلافہ الجمھور والجم الغفیر من أھل المدینة“(۹) (خبرواحد کی قبولیت کے لیے امام مالک نے یہ شرط رکھی کہ وہ جم غفیر اور جمہور اہلِ مدینہ کے عمل کے خلاف نہ ہو)۔

          خبرواحد اور عمل اہلِ مدینہ میں تعارض کے وقت وہ اہلِ مدینہ کے عمل کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدینہ کا عمل جو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثتاً ملا ہے، وہ خبرِواحد کے مقابلہ میں زیادہ مستند ہے؛ چنانچہ انھوں نے شیخ لیث کے نام رسالہ میں عمل اہل مدینہ کو خبر واحد پر مقدم رکھنے کو جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ اہلِ مدینہ کی اتباع کرتے ہیں، مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور مدینہ میں قرآن نازل ہوا۔ یہاں اللہ نے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کہا۔ رسول اللہ… صحابہ کے سامنے تھے، آپ حکم دیتے تھے وہ اس پر عمل کرتے تھے، آپ انھیں سکھاتے تھے وہ اس کا اتباع کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضور کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد امت میں ابوبکر وعمر وعثمان، جیسے صاحب امر ہوئے جن کی لوگوں نے اتباع کی۔ ان کے بعد تابعین بھی اسی راہ پر چلے اور انھیں سنتوں کی پیروی کرتے رہے۔ مدینہ میں جس بات پر لوگوں کا عمل ہوتا تھا اس پر کسی کو اختلاف کرتے ہم نے نہیں پایا تو اسی سے الگ ہونا اوراس کے خلاف ہونا جائز نہیں۔(۱۰)

          اسی بنیاد پر امام مالک نے حدیث کی تحقیق کا معیار عمل اہل مدینہ کو قرار دیا۔ ان کے نزدیک اہل مدینہ کا عمل اور ان کی رائے مشہور سنت کی حیثیت رکھتی ہے اور مشہور سنت خبرواحد پر ہمیشہ مقدم ہوتی ہے؛ اس لیے امام مالک خبرِ واحد پر عمل اہل مدینہ کو مقدم رکھتے تھے۔

          امام مالک کے شیخ ربیعہ کا بھی یہی مسلک تھا، وہ کہتے تھے کہ ہزار ہزار سے نقل کریں یہ بہتر ہے اس سے کہ ایک ایک سے نقل کرے۔(۱۱)

          موطا لکھنے سے امام مالک کی غرض ان حدیثوں کو جمع کرنا نہیں تھا، جن کے راوی ثقہ ہوں، جیساکہ کتبِ صحاح کے مصنّفین نے التزام کیا؛ بلکہ ان روایات کو جمع کرنا تھا، جن پر اہل مدینہ کا عمل اوراجماع تھا؛ اسی لیے (غالباً) انھوں نے موطا میں اسناد کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی؛ کیونکہ یہ روایات جم غفیر اور جمہور اہل مدینہ کے عمل کی ترجمان ہیں، ان کا راوی اِکّا دُکّا نہیں؛ بلکہ ہزاروں ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ التزام سند کے سوا راویوں کی تحقیق کے تمام علوم، مثلاً علم تاریخ رواة، فنِ جرح وتعدیل اور علم مصطلح الحدیث سب بعد میں ایجاد ہوئے، جن کی مدد سے راویوں کی جانچ و پرکھ ہوئی اور موطا ان اصولوں کے وضع کیے جانے سے پہلے لکھی جاچکی تھی۔

          حضرت شاہ صاحب نے موطا کو صحیح بخاری و مسلم پر اس لیے بھی فوقیت دی ہے کہ انھوں نے اسے تمام کتبِ حدیث کی اصل واساس قرار دیا ہے اور بعد کی تمام کتابوں کو اس کی شروح وتکملے اور مستخرجات مانا ہے۔ جمہور محدثین نے اس کی روایات کو صحیح تو تسلیم کیا ہے؛ لیکن اس میں موجود مرسل اور منقطع روایات کی بنیاد پر صحاح ستہ میں اسے شامل نہیں کیا ہے؛ حالانکہ اس کی تمام روایات متن کے اعتبار سے تمام کتبِ حدیث میں سب سے اعلیٰ ہیں۔ آج تک اس کی ایک بھی روایت پر کسی نے موضوع ہونے کا شبہ تک نہیں کیا؛ جب کہ صحاح ستہ کی ایک معتدبہ روایات پر غیرصحیح؛ بلکہ موضوع ہونے کا الزام جائز ٹھہرایا ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے نزدیک ”صحت“ کا مطلب محض سنداً نہیں؛ بلکہ متنا ً اور درایتاً بھی ہے؛ اس لیے انھوں نے موطا کو تمام کتبِ حدیث میں پہلے درجہ پر رکھا اوراس میں وہ حق بجانب ہیں۔

          موطا امام مالک سے بلاواسطہ ایک ہزار سے زاید اشخاص نے روایت کیا، ان میں بعض فائق فقہاء ہیں، جیسے امام شافعی۲۰۴ھ)، امام محمد بن الحسن شیبانی (م۱۸۹ھ)۔ (امام شیبانی نے امام مالک سے موطا پڑھ کر اس کو مرتب کیا ہے اوراس میں اضافہ بھی کیا ہے، جو موطا محمد کے نام سے معروف ہے۔ درحقیقت وہ موطا امام مالک ہی ہے۔) عبد اللہ بن وہب مصری (م۱۹۷ھ) عبدالرحمن بن القاسم مصری (م۱۹۱ھ) اور بعض اونچے درجے کے محدث ہیں، جیسے یحییٰ بن سعید القطان، عبدالرحمن بن مہدی، عبدالرزاق صنعانی (صاحب مصنَّف عبدالرزاق) اور بعض بادشاہ اور امراء ہیں، جیسے خلیفہ ہارون رشید اوراس کے دو بیٹے امین ومامون۔

          موطا کی شہرت خود امام مالک کی زندگی ہی میں اسلامی مملکت کے کونے کونے میں پھیل چکی تھی اور مابعد زمانوں میں اس کی شہرت میں اضافہ ہی ہوتا رہا؛ یہاں تک کہ اسلامی دنیا کے سب ہی مجتہدین نے اس پر اپنے مذہب کی عمارت تعمیر کی۔ علماء اسلام برابر موطا کی حدیثوں کی تخریج،اس کے متابعات وشواہد کا تذکرہ،اس کے نامانوس الفاظ کی تشریح، اس کے مبہم امور کا انضباط، اس کی حدیثوں سے مسائل کا استنباط اور اس کے راویوں کے حالات کی تفتیش کرتے رہے اور یہ سب کام اس درجہ تک ہوتا رہا کہ اس کے بعد کوئی درجہ نہیں۔

صحیحین:

          صحیحین حدیث کے صفِ اوّل کی کتب ہونے میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ ان کی مرفوع ومتصل روایتیں قطعی طور پر صحیح ہیں؛ مگر امام دارقطنی، ابومسعود دمشقی اور ابوعلی غسانی نے صحیحین کی ایک سو دس روایات پر نقد کیا ہے اور ان کو غیرصحیح بتایا ہے۔ حافظ ابن صلاح نے اس استثناء کو تسلیم کیا ہے، انھوں نے فرمایا کہ بخاری ومسلم پر جو مواخذہ یا قدح، معتمد حفاظ حدیث مانند دارقطنی وغیرہ کی طرف سے وارد ہے، وہ ہمارے فیصلہٴ سابق سے مستثنیٰ ہے(۱۲)؛ کیوں کہ اتنے حصے کی تلقی بالقبول پر اجماع نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ جو صحیحین کی روایات کی بے قدری کرتا ہے اور ان کو ہیچ سمجھتا ہے وہ مبتدع (گمراہ) ہے۔(۱۳)

دوسرے طبقے کی تین کتابیں:

          اس کے بعد کچھ دوسری کتابیں ہیں، جو موطا اور صحیحین کے مرتبہ تک تو نہیں پہنچتیں؛ مگر وہ ان سے متصل اور پیچھے پیچھے ہیں۔ ان کے مصنف اعتماد، عدالت، حفظ اور علومِ حدیث میں تبحر میں معروف ہیں۔ انھوں نے اپنی کتابوں کے لیے جو شرائط (صحت واتصال) طے کی تھیں، ان میں سہل انگاری سے کام نہیں لیا۔ بعد والوں نے ان کی کتابوں کا قبولیت کے ساتھ استقبال کیا ہے اور ہر زمانہ میں محدثین وفقہاء نے ان کے ساتھ اعتناء برتا ہے اور وہ کتابیں لوگوں کے درمیان مشہور ہوئیں اور علماء نے ان کتابوں کے ساتھ تعلق رکھا۔ کسی نے ان کے نامانوس الفاظ کی تشریح کی ہے، کسی نے ان کے رجال کا تتبع کیا ہے اور کسی نے ان کی حدیثوں سے مسائل مستنبط کیے ہیں اور ان روایات پر عام طور پر علومِ دینیہ کا مدار ہے، جیسے امام ابوداؤد (م۲۷۵ھ) کی سنن، امام ابوعیسیٰ ترمذی (م۲۷۹ھ) کی جامع (سنن ترمذی) اور امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی (م۳۰۳ھ) کی مجتبیٰ جس کو سنن صغریٰ اور مطلق سنن بھی کہتے ہیں۔

          چھٹی صدی ہجری کے محدث رزین بن معاویہ عبدری سرقُسطی (م۵۳۵ھ) نے طبقہٴ دوم کی یہ تین کتابیں اور طبقہٴ اولیٰ کی ماقبل مذکور تین کتابیں تجرید الصحاح الستہ میں ان کی حدیثوں کی اسناد حذف کرکے جمع کیا ہے۔ ان کے بعد ابن الاثیر جزری (م۶۰۶ھ) نے مذکورہ تجرید کی تہذیب و ترتیب کی ، جس کا نام جامع الاصول لاحادیث الرسول رکھا، جو مطبوعہ اور متداول ہے۔

          امام احمد کی مسند کو بھی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسی طبقہ سے منسلک کیاہے۔ آپ لکھتے ہیں:

          ”وکان مسند أحمد یکون من جملة ھذہ الطبقة فان الامام أحمد جعلہ أصلاً یعرف بہ الصحیح من السقیم قال ما لیس فیہ فلا تقبلوہ“(۱۴)

(اور قریب ہے کہ مسند احمد کہ ہو وہ من جملہ اس طبقہ کی کتابوں کے بے شک امام احمد نے اس کتاب کو ایسی اصل (کسوٹی) بتایا ہے جس کے ذریعہ صحیح وسقیم روایات کو جانا جاسکتا ہے) آپ نے فرمایا کہ جو مسند میں نہیں ہے، اس کو قبول نہ کرو (یعنی صحیح روایات سب مسند میں جمع ہیں اور جو اس سے باہر ہیں وہ صحیح نہیں)؛ مگر اطلاق کے ساتھ امام احمد کی یہ بات علماء نے قبول نہیں کی)۔

          کیونکہ مسند احمد ذخیرہٴ حدیث کی مسند روایات کا بہت بڑا مجموعہ سہی؛ لیکن تمام روایات کا استیعاب نہیں؛ اس لیے کہ اس میں بہت سی روایات امام احمد سے نقل کرنے میں چھوٹ گئیں، مثلاً ترجمہ حضرت عائشہ میں قصہٴ ام ذرع والی حدیث اس میں نہیں۔ اسی طرح بقول علامہ سیوطی: تقریباً مختلف صحابہ کی دو سو روایات مسند میں درج ہونے سے رہ گئیں، جن سے صحیح بخاری اور مسلم میں حدیثیں منقول ہیں(۱۵)۔ ہوسکتا ہے، یہ روایات انھیں دستیاب نہ ہوسکی ہوں اور وہ بعد کے ائمہ مثلاً بخاری ومسلم کو دستیاب ہوگئیں۔ بہرحال اس سے مسند میں درج روایات کی صحت پر فرق نہیں پڑتا۔ اور نہ ہی امام احمد کے دعویٰ کو سامنے رکھ کر اسے یہ درجہ دیا گیا؛ بلکہ یہ درجہ اس میں درج روایات کی صحت و شہرت کی بنیادپر عطا کیا۔

          دوسری بات یہ کہ مسند احمد طبقہٴ دوم میں براہِ راست نہ ہوکر اس کے ”قریب“ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ مسانید میں احادیث کی تخریج میں ہر صحابی کی تمام روایات کو بلا ترتیبِ عنوان ایک جگہ جمع کردیا جاتاہے۔ اس میں صرف صحیح روایات کوجمع کرنے پر اکتفا نہیں کیاجاتا۔ حافظ ابن صلاح مسانید میں درج روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

          ”فَھٰذِہ عَادَتُھُمْ فِیْھَا أنْ یَخْرُجُوا فِيْ مُسْنَدِ کُلِّ صَحَابِيٍ مَا رَوَوْہُ مِنْ حَدِیْثِہ غَیْرِ لَتَقَیِّدِیْنَ فِأنْ یَکُوْنَ حَدِیْثًا مُحْتَجًّا بِہ “(۱۶)

(مسند میں احادیث کی تخریج کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں ہر صحابی کی تمام روایات کو ایک جگہ جمع کردیا جاتا ہے۔ اس میں اس بات کی قید نہیں ہوتی کہ تمام احادیث قابلِ احتجاج ہوں)۔

          مسانید اور فقہی ابواب کے مطابق ترتیب دی جانے والی کتابوں میں جو فرق ہے، اس کو واضح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فرمایا:

          ”وضع التصنیف للحدیث علی الأبواب أن یقتصر فیہ علی ما یصلح للاحتجاج أو الاستشھاد بخلاف من رتب علی المسانید فان أصل رفعہ“(۱۷)

(ابواب کی ترتیب پر تصنیفات (جوامع) میں صرف انھیں روایات کو جمع کیاجاتاہے، جو احتجاج اور استشہاد کی صلاحیت رکھتی ہوں، بخلاف مسانید کے جن کے لکھنے کا مقصد صرف جمعِ حدیث ہوتا ہے)۔

          اسی وجہ سے شیخ طاہر الجزائری لکھتے ہیں:

          ”أما کتب المسانید دون کتب السنن فی الرتبہ“(۱۸)

(کتب مسانید مرتبہ میں کتبِ سنن سے کم تر ہوتی ہیں)۔

          لیکن مسانید میں مسند احمد سب سے افضل ہے، اس کی روایات دوسری تمام مسانید کے مقابلہ میں صحیح تر ہیں۔ امام شوکانی نے اسے ان تمام کتابوں میں اصح بتایا ہے، جن کتب (مسانید) میں روایات راوی کی بنیاد پر جمع کی جاتی ہیں۔(۱۹)

          علامہ سیوطی نے مام ہیثمی (م۸۰۷ھ) کے واسطے سے فرمایا: مسند أحمد أصح صحیحا من غیرہ(۲۰) (مسند احمد تمام مسانید میں سب سے صحیح ہے)۔

          حاصل یہ کہ مسند احمد طبقہٴ دوم میں چوتھی اور من جملہ کتبِ حدیث میں چھٹی مستند ترین کتاب ہے؛ اسی لیے یہ ہرزمانے کے محدثین کے لیے قابلِ اعتماد ومرجع رہی ہے۔

سنن ابن ماجہ:

          حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے سنن ابن ماجہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، طبقاتِ کتب حدیث بیان کرتے ہوئے، اس کا ذکر نہ طبقہٴ دوم میں کیا اور نہ سوم وچہارم میں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں موجودضعیف روایات کی کثرت کی وجہ سے امام ولی اللہ نے اسے طبقہٴ دوم کی کتب میں شامل نہیں کیا۔

روایات سنن ابن ماجہ کی نوعیت:

          سنن ابن ماجہ میں ایک بڑی تعداد ان روایات کی ہے، جو کتبِ خمسہ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی) میں نہیں پائی جاتیں۔ امام ابن ماجہ ان احادیث کی روایت میں منفرد ہیں۔ ان میں بہت سی ضعیف الاسناد احادیث بھی ہیں۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا: ”وفیہ احادیث کثیرة منکرة“(۲۱)(اس میں منکر روایات بہ کثرت ہیں)۔

          حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ نے کتاب مرتب کرکے ابوزرعہ پر پیش کی۔ انھوں نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ شاید اس میں تیس سے زیادہ ایسی حدیثیں نہیں، جن کی اسناد میں ضعف ہے، سیراعلام النبلاء میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ابوزرعہ کا قول کہ اس میں تیس سے زیادہ ضعیف حدیثیں نہیں، اگر یہ قول صحیح ہے تو اس سے مراد تیس ایسی حدیثیں ہیں جو مردود (المطرحہ الساقطہ) ہیں؛ لیکن ایسی روایات جو احتجاج کے قابل نہیں، وہ ہزار کے قریب ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ امام ابن ماجہ حافظ الحدیث، بہترین ناقد حدیث، صادق القول اور وسیع العلم ہیں۔ ان کی کتاب سنن کے مرتبہ سے کم تر ہے؛ اس لیے کہ اس میں منکر اور کچھ موضوع روایتیں بھی ہیں۔(۲۲)

          سنن ابن ماجہ کی ۴ہزار روایات میں سے ایک بڑی تعداد (ہزار کے قریب) روایت ناقابلِ استدلال ہونے کی وجہ سے یہ جملہ مشہور ہوا ”کل ما انفرد بہ ابن ماجہ فہو ضعیف“ (ہر وہ روایت جسے امام ماجہ بیان کرنے میں منفرد ہوں وہ ضعیف ہے)؛ لیکن اس جملہ میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ سے کام لیاگیا ہے۔ حافظ ابن حجر اس جملہ پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”لیس الأمر فی ذلک علی اطلاقہ فاستقرائی وفی الجملة ففیہ أحادیث کثیرة منکرة“(۲۳) (میرے استقراء وعلم کے مطابق یہ حکم علی الاطلاق درست نہیں، تاہم اس سے انکار نہیں کہ اس میں منکر احادیث کی تعداد زیادہ ہے)۔ علامہ ابن جوزی نے اس کی تیس روایات کو موضوع کہاہے۔

          ابن ماجہ میں بڑی تعداد میں روایات کا ضعیف ہونا اور علامہ ابن جوزی اور حافظ ذہبی اور دوسرے ائمہ کی طرف سے اس کی ایک معتدبہ روایات پر موضوع ہونے کے الزام کے پیش نظر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسے دوسرے طبقہ کی کتب میں شامل نہیں گردانا۔ حافظ ذہبی نے یہ بات صاف طور پر بیان کی کہ اس کا مرتبہ سنن (ابوداؤد، نسائی اور ترمذی) سے کم تر ہے(۲۴)۔ یہی رائے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی بھی ہے اور صحیح ہے؛ کیونکہ کتبِ خمسہ میں کوئی بھی ایسی کتاب نہیں، جس میں اتنی بڑی تعداد میں روایات ضعیف ہوں۔

ابن ماجہ اور صحاح ستہ:

          چوتھی صدی ہجری کے وسط میں موجودہ کتبِ ستہ یا صحاحِ ستہ کے تصور کی طرح کتبِ اربعہ کا تصور پیدا ہوا، جس میں صرف صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی تھیں۔ حافظ ابن السکن اور حافظ مندہ نے فقط اِنھیں چارکتابوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے(۲۵)۔ یہ ائمہٴ سنن ترمذی اور ابن ماجہ کو اس پایہ کی کتب نہیں تسلیم کرتے تھے، بعد میں حافظ ابوطاہر سلفی نے پانچویں صدی ہجری میں سنن/جامع ترمذی کو بھی مذکورہ کتبِ اربعہ کے ساتھ ملحق کیا۔ اسی دوران محمد بن طاہر مقدسی (م۵۰۷ھ) نے سنن ابن ماجہ کو بھی کتبِ اربعہ سے ملحق کرنے کی کوشش کی؛ لیکن امام حازمی (۵۸۴ھ) اور ابن جوزی (م۵۹۷ھ) جیسے ائمہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا؛ لیکن ترمذی کو کتبِ خمسہ کی حیثیت سے تسلیم کرلیاگیا۔ اس کے بعد حافظ عبدالغنی (م۶۰۰ھ) نے اس کی حسنِ ترتیب اور فقہی ابواب کی منفعت کی بنیاد پر ابن ماجہ کو اصولِ خمسہ سے ملحق کرنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی۔ اس کے بعد ابن النجار (م۶۴۳ھ) ابن تیمیہ (م۶۵۲ھ)، امام جزری (م۷۱۱ھ) اوراکثر اہل علم نے ابن ماجہ کو کتبِ ستہ کی حیثیت سے قبول کرلیا؛ لیکن اسی زمانے کے شیخ ابن صلاح (م۶۴۳ھ)، امام نووی(م۶۷۶ھ) اور ابن خلدون (۸۰۸ھ) نے ابن ماجہ کو چھٹی کتاب کی حیثیت سے کبھی نہیں تسلیم کیا۔ یہ ائمہ اور امام حازمی اور علامہ ابن جوزی صرف اصولِ خمسہ ہی کا ذکر کرتے ہیں۔

          جس دوران ابن ماجہ کو کتبِ ستہ میں شامل کرنے کی پہلی کوشش کی گئی، اس وقت علامہ رزین مالکی نے (م۵۲۵ھ) التجرید للصحاح والسنن میں اور ابن الاثیر جزری (م۶۰۶ھ) نے جامع الاصول میں ودیگر علماء مغرب نے موطا کو کتب ستہ میں شامل تسلیم کرلیا(۲۷)۔ اس کے بعد یہ امر طے ہوگیاکہ علماء مغرب کے نزدیک موطا اور بقیہ سہ جانب ائمہ کے یہاں ابن ماجہ شامل صحاح ستہ ہے۔

          ابن ماجہ حسن ترتیب اور اختصار میں بے نظیر ہے۔ اس کتاب کو جس چیز نے عوام وخواص میں پذیرائی اور قبولیت عطا کی وہ اس کا شاندار اسلوب اور روایات کا حسنِ انتخاب ہے۔ ابواب کی فقہی ترتیب سے مسائل کا واضح استنباط اور تراجمِ ابواب کی احادیث سے بغیر کسی پیچیدگی اور الجھن کے مطابقت نے سننِ ابن ماجہ کے حسن کو نکھاراہے۔ اس کی ایک اہم انفرادیت اور خصوصیت یہ ہے کہ امام ابن ماجہ اپنی سنن میں کوئی حدیث مکرر نہیں لائے ہیں۔ یہ وہ خوبی ہے جو بقیہ کتبِ اصول کی کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی۔

          دوسری بات یہ ہے کہ سنن ابن ماجہ میں دیگر کتب سنن کی بہ نسبت بہت زیادہ اختصار سے کام لیاگیا ہے، اس کے باوجود یہ کتاب ضروری مسائل اور احکام کی جامع ہے۔ زیادہ تر اس کتاب میں مسائل اوراحکام سے متعلق احادیث ہیں۔ فضائل ومناقب کی روایات اس کتاب میں نہیں ہیں۔ ابن ماجہ کی ان ہی فنی خصوصیات کے پیش نظر درس وتدریس کے طلبا اور عام قارئین کے لیے مفید سمجھتے ہوئے ائمہٴ حدیث نے اسے کتبِ ستہ سے ملحق کیا ورنہ نفس روایات اور اس کے رواة کا حال دیکھتے ہوئے سننِ دارمی اور دسری کتب، جیسے صحیح ابن حبان، دارقطنی اور کئی دیگر کتب ابن ماجہ سے برتر ہیں؛ لیکن ان کتب کو وہ قبول عام حاصل نہ ہوسکا جو سنن ابن ماجہ کو نصیب ہوا۔ علامہ سخاوی حافظ علائی (م۷۷۱ھ) کے واسطے سے فرماتے ہیں: ”ینبغی أن یکون کتاب الدارمی سادسہا للخمسة بدلہ فانہ قلیل الرجال الضعفاء نادر الأحادیث المنکرة والشاذة“(۲۸) (کتب ستہ میں سنن ابن ماجہ کے بدلے سنن دارمی زیادہ مناسب ہے؛ اس لیے کہ سننِ دارمی میں ضعیف روایات کم ہیں اور منکر وشاذ روایات بھی نادر ہیں)۔

          اسی طرح علامہ سیوطی نے فرمایاکہ دارمی کی کتاب مرتبہ میں سنن اربعہ سے کم نہیں؛ بلکہ اگر اس کو کتب خمسہ سے ملحق کیا جائے تو ابن ماجہ کی بہ نسبت یہ اولیٰ ہے؛ کیونکہ وہ سنن ابن ماجہ سے کہیں فائق ہے۔(۲۹)

تیسرے طبقے کی کتب حدیث:

          اس طبقہ میں حضرت شاہ صاحب نے حدیث کی ان کتابوں کو شامل کیا جو بخاری ومسلم سے پہلے یا ان کے زمانہ میں یا ان کے بعد لکھی گئیں، جن میں صحیح، حسن، ضعیف، معروف، غریب، شاذ، منکر، ثابت، مقلوب سبھی طرح کی حدیثیں مندرج ہیں اوران کو علماء کے درمیان بہت زیادہ شہرت حاصل نہیں ہوئی، گرچہ وہ بالکل انجانی بھی نہیں رہیں۔ اور جن روایات کے ساتھ وہ کتابیں منفرد ہیں وہ فقہاء کے درمیان بہت زیادہ متداول بھی نہیں رہیں اور محدثین نے ان روایات کی صحت وسقم کے بارے میں بہت زیادہ تفحص بھی نہیں کیا۔ ان میں بعض وہ ہیں،جن کے غریب کلمات کی شرح کرکے کسی عالم لغت نے اور ان کی روایات کو سلف کے مذاہب کے ساتھ تطبیق دے کر کسی فقیہ نے اور ان کے مبہمات کی وضاحت کرکے کسی محدث نے اور اس کے رجال کے ناموں کا تذکرہ کرکے کسی مورخ نے کوئی خدمت نہیں کی؛ گوکہ زمانہ مابعد میں ان کی خدمت کی گئی؛ مگر متقدمین نے ان کو درخور اعتناء نہیں سمجھا؛ لہٰذا وہ کتابیں پوشیدگی اور گمنامی میں رہیں، جسے ابو یعلی موصلی (م۳۰۷ھ) کا مسند جو مطبوعہ ہے، عبدالرزاق بن ہمام (م۲۱۱ھ) کی مصنف جو محدث عصر مولانا حبیب الرحمن اعظمیکی تعلیقات کے ساتھ مطبوعہ ہے، ابوبکر عبداللہ بن محمد، معروف بابن ابی شیبہ واسطی (م۲۳۴ھ) کا مصنف جو طبع ہوچکا ہے، عبدبن حمید کسی (م۲۴۹ھ) کا مسند، ابوداؤد سلیمان بن ابوداؤد طیالسی (م۲۰۳ھ) کا مسند جو مطبوعہ ہے؛ مگر یہ مسند خود ابوداؤد کا ترتیب دیا ہوا نہیں؛ بلکہ بعد میں کسی نے ان کی بعض مسموعات کو جمع کیاہے، احمد بن حسین البیہقی (م۴۵۸ھ) کی کتابیں ”السنن الکبریٰ“ دس جلدوں میں ہے، الجامع المصنف فی شعب الایمان جو صرف شعب الایمان بھی کہلاتی ہے، مطبوعہ ہے۔ معرفة السنن والآثار، دلائل النبوة (مطبوعہ)، الاسماء والصفات (مطبوعہ)، القرأة خلف الامام (مطبوعہ)، ابوجعفر احمد بن محمد الطحاوی (م۳۲۱ھ) کی کتابیں: شرح معانی الآثار المختلفة المرویہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاحکام، جو معانی الآثار کے نام سے مشہور ہے (مطبوعہ)، بین مشکل الآثار (مطبوعہ)، سلیمان بن احمد طبرانی (م۳۶۰ھ) کی کتابیں: جیسے المعجم الکبیر (مطبوعہ)، المعجم الصغیر (مطبوعہ)، المعجم الوسیط (غیرمطبوعہ)۔

          ان حضرات کا مقصد ان تمام روایات کو جمع کرنا تھا، جو انھیں دستیاب ہوجائیں، تلخیص وتہذیب اور قابلِ عمل روایات کا انتخاب ان کا مقصد نہیں تھا، یہ کام انھوں نے بعد والوں کے لیے چھوڑا۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ چونکہ حدیثوں کے ساتھ ان کی سند بیان کردی گئی ہیں، متاخرین سند دیکھ کر ان روایات کا معیار خود متعین کرلیں گے؛ لیکن فی الواقع ایسا ہوا نہیں۔ بعد والوں نے ان کتب کے مصنّفین کی شان وجلالت دیکھ کر ان کی کتابوں پر اسی حالت میں بھروسہ کرلیا۔

چوتھے طبقے کی کتابیں:

          ذخیرہٴ حدیث میں کچھ وہ کتابیں ہیں جن کے مصنّفین نے صدیاں بیت جانے کے بعد ان روایات کو جمع کرنے کا قصد کیا، جو پہلے دو طبقوں کی کتابوں میں نہیں تھیں۔ وہ روایات جوامع اور مسانید میں مخفی تھیں۔ ان حضرات نے ان روایات کی شان بلند کی، یہ سات قسم کی روایات ہیں:

۱-       ایسے روایوں کی روایتیں جن کو محدثین نے نہیں لکھا، جیسے بے احتیاط بولنے والے واعظین، گمراہ فرقوں کے لوگ اور روایت حدیث میں کمزور رُوات۔

۲-       صحابہ وتابعین کے آثار یعنی موقوف اور مقطوح روایات۔

۳-       حکماء اور واعظوں کی باتیں، جن کو راویوں نے سہواً یا عمداً مرفوع روایات کے ساتھ خلط ملط کردیا۔

۴-       اسرائیلی روایات۔

۵-       قرآن وحدیث کے احتمالی مطالب۔ کچھ نیک لوگوں نے جو روایت کی باریکیوں کو نہیں جانتے تھے، ان کو بالمعنی روایت کیا اور ان کو مرفوع روایت بنادیا۔

۶-       قرآن وحدیث کے ارشادات سے سمجھی ہوئی باتیں جن کو رُوات نے مستقل بالذات حدیثیں بنادیا۔

۷-       مختلف حدیثوں کے متفرق جملے جن کو ملاکر ایک سیاق کی حدیث بنادیاگیا۔

          یہ روایات عام طور پر درج ذیل کتابوں میں پائی جاتی ہیں:

          (۱) ابوحاتم محمد بن حبّان بُستی (م۳۵۴ھ) کی کتاب الضعفاء والمجروحین۔

          (۲) ابواحمد عبداللہ بن عدی جرجانی (م۳۶۵ھ) کی الکامل فی الضعفاء والمتروکین (اس کتاب میں ہر متکلم فیہ راوی کا تذکرہ کیا ہے، اگرچہ وہ صحیحین کا راوی ہو)۔

          (۳) خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی (م۵۶۳ھ) کی کتابیں مثلاً تاریخ بغداد (اس کتاب میں احادیث کا کافی ذخیرہ ہے)۔

          الکفایة فی علم الروایة (اصول حدیث میں)، اقتضاء العلم العمل، موضح احکام الجمع والتفریق، الفوائد المنتخبة اورالجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع۔

          (۴) حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی (م۴۳۰ھ) کی کتابیں، مثلاً حلیة الاولیاء، طبقات الاصفیاء اور دلائل النبوة ومعرفة الصحابہ۔

          (۵) ابواسحاق جوزجانی احمد بن عبداللہ محمد شام (م۲۵۹ھ) کی کتابیں، جیسے کتاب فی الجرح والتعدیل اور کتاب الصغفاء۔

          (۶) ابوالقاسم ابن عساکر علی بن الحسن دمشقی (م۵۷۱ھ) کی کتابیں، مثلاً: تاریخ دمسق الکبیر، جس کی شیخ عبدالقادر بدران نے تلخیص کی ہے، جو تہذیب تاریخ ابن العساکر کے نام سے طبع ہوئی ہے۔

          (۷) ابن النجار محمد بن محمود بغدادی (م۶۴۳ھ) کی کتابیں، جیسے: الدرة الثمینة فی اخبار المدینة اور الکمال فی معرفة الرجال۔

          (۸) الدیلمی شیرویہ بن شہردار (م۵۰۹ھ) کی کتاب فردوس الاخبار۔ جس کا اختصار ان کے صاحب زادے شہردار بن شیرویہ (م۵۵۸ھ) نے کیاہے، جس کا نام مسند الدیلمی ہے۔

          (۹) قاضی القضاة ابوالموید محمد بن محمود خوارزمی (م۶۵۵ھ) کی کتاب جامع مسانید الامام ابی حنیفہ کو بھی اسی طبقہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس میں امام اعظم کی پندرہ مسانید کو جمع کیاگیا ہے۔

          اس طبقہ (چہارم) کی کتابیں علامہ ابن الجوزی عبدالرحمن بن علی (م۵۹۷ھ) کی کتاب الموضوعات وغیرہ ہیں۔ یعنی زیادہ تر انھیں کتابوں کی روایات پر انھوں نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔

چاروں طبقات کی کتابوں کے احکام:

          پہلے اور دوسرے طبقہ کی کتابوں کے بارے میں حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انھیں کتب پر محدثین کا اعتماد ہے اور انھیں پر قناعت کرتے ہیں۔(۳۰)

          تیسرے طبقے کی کتابوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کتب سے قابلِ عمل روایات وہی حضرات منتخب کرسکتے ہیں، جو حاذق وناقد ہیں، جن کو راویوں کے حالات اور اسانید کی خرابیاں معلوم ہیں۔ اور کبھی کبھار اس طبقہ کی روایات شواہد ومتابعات کے لیے بھی قبول کی جاتی ہیں؛ جب کہ چوتھے درجے کی روایت سے شغل رکھنا، ان کو جمع کرنا اور ان سے مسائل مستنبط کرنا متاخرین کا ایک طرح کا غلو اور تعمق ہے۔ روافض اور معتزلہ اور ان جیسے دیگر فرق سے وابستہ لوگوں کو انھیں کتابوں سے مواد ہاتھ آتا ہے؛ جب کہ اس طبقہ کی کتابوں میں درج روایات سے علمی سطح پر استدلال درست نہیں چہ جائے کہ ان سے عقائد اخذ کیے جائیں، جیساکہ گمراہ فرقوں نے کیا۔(۳۱)

          اس کے بعد حضرت شاہ صاحب نے ایک پانچواں طبقہ بھی بیان کیاہے، فرماتے ہیں کہ اس طبقہ کی کتابیں دراصل حدیث کی کتابیں نہیں؛ بلکہ فقہ یا تاریخ کی کتابیں ہیں یا صوفیاء کے ملفوظات یا دیگر موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ شاہ صاحب نے ان کتابوں کے لیے اک پانچواں طبقہ علاحدہ قائم کیا ہے، فرماتے ہیں کہ پانچویں درجہ میں وہ روایتیں ہیں جو فقہاء، صوفیاء، مورخین اور اس قسم کے دوسرے حضرات جیسے واعظین ومبلغین کی زبانوں پر معروف ہیں؛ مگر مذکورہ چار طبقات کی کتابوں میں ان کی کوئی اصل نہیں پائی جاتی۔ اس طبقہ میں بعض روایتیں وہ بھی ہیں جو بے حیا لوگوں نے دین میں داخل کردی ہیں، جو عربی زبان جانتے تھے؛ اسی لیے اچھے مضمون پر مشتمل کوئی بلیغ فقرہ بناکر حدیث کے نام سے چلتا کرتے تھے۔ وہ کلامِ نبوت کے مشابہ ہوتا ہے؛ اسی لیے آسانی سے اس کو حدیث باور کرلیا جاتا ہے۔ پھر وہ بددین مزید چالاکی یہ کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ قوی سند جوڑدیتے ہیں، جس پر جرح ممکن نہیں ہوتی۔ ان لوگوں کی یہ حرکت دین میں بڑا فتنہ ہے؛ مگر نقادِ حدیث ان روایات کو متابعات اور شواہد کے ساتھ ملاتے ہیں تو ان روایات کی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔(۳۲)

***

حواشی ومراجع:

(۱)         حجة اللہ البالغہ، ۱/۱۳۳، ادارة الطباعة المنیریة، ۱۳۵۲ھ۔ اس مقالہ میں مفتی سعید احمد پالن پوری دام ظلہ (شیخ الحدیث و صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند) کی ”رحمة اللہ الواسعہ شرح حجة اللہ البالغہ“ جلد ۲ سے حضرت شاہ ولی اللہ کی عبارت کا مفہوم اور اس کی شرح وغیرہ میں مدد لی گئی ہے۔    

(۲)        مالک حیاتہ وعصرہ وآراء ہ وفقہہ، ۲۹۶، ابوزہرہ، قاہرہ، ۱۳۶۳ھ۔

(۳)        ایضاً۔

(۴)        محاسن الاصطلاح وتضمین کتاب ابن صلاح، ص۱۴۱، سراج الدین بلقینی، دارالکتب، مصر ۱۹۷۴/۔

(۵)        مقدمہ ابن صلاح، ص۱۳۶۔

(۶)        تذکرة الحفاظ ۱/۲۰۸، ابوعبداللہ شمس الدین الذہبی، حیدرآباد ۱۳۳۵ھ۔

(۷)        شرح الزرقانی علی صحیح الموطا، ص۹، محمد زرقانی، مصر۔

(۸)        مصفی ۱/۷۔

(۹)        الحدیث والمحدثون، ص۲۸۱، محمد محمد ابوزہو، مصر ۱۳۷۸ھ۔

(۱۰)       مالک حیاتہ، ص۱۲۲۔

(۱۱)        ایضاً۔

(۱۲)       مقدمہ ابن صلاح، ص۱۰۱۔

(۱۳)       حجة اللہ البالغہ ۱/۱۳۴۔

(۱۴)       ایضاً۔

(۱۵)       تدریب الراوی، ۱/۷۳، جلال الدین سیوطی، پاکستان ۱۳۷۹ھ۔

(۱۶)       مقدمہ ابن صلاح، ص۱۱۲۔

(۱۷)       تعجیل المنفعہ، ص۳، حافظ ابن حجر عسقلانی، حیدرآباد ۱۳۲۷ھ۔

(۱۸)       توجیہ النظر، ص۵۳، طاہر بن صالح بن احمد الجزائری، مصر ۱۳۲۸ھ۔

(۱۹)       نیل الاوطار، ۱/۱۰، محمد بن علی الشوکانی، مصر، مطبع بولاق۔

(۲۰)       تدریب الراوی ۱/۱۷۲۔

(۲۱)       تہذیب التہذیب ۹/۵۳۱، حافظ ابن حجر عسقلانی، حیدرآباد ۱۳۲۶ھ۔

(۲۲)       سیراعلام النبلاء، ترجمہ امام ابن ماجہ محمد بن یزید، شمس الدین الذہبی، قاہرہ ۱۹۶۱/۔

            ایضاً، دیکھیے تذکرة الحفاظ ۲/۱۵۹، شروط الائمة الستة، ص۷۲ پر ابوذرعہ الرازی فرماتے ہیں: طالعت کتاب ابی عبد اللّٰہ فلم اجد فیہ الاقدر یسیر مما فیہ شيء․

(۲۳)      تہذیب التہذیب ۹/۵۳۱۔

(۲۴)      سیر اعلام النبلاء، ترجمہ امام ابن ماجہ، محمد بن یزید۔

(۲۵)      شروط الائمہ الستة، ص۷۱۔

(۲۶)       Gold Aihar, Muslim Studies, P.240. V-2. Oxford, London, 1971

(۲۷)      مقدمہ ابن صلاح، ص۱۱۲، فتح المغیث، ص۳۳، شمس الدین محمد السخاوی، مطبع انوارمحمدی ۱۳۰۳ھ۔

(۲۸)      فتح المغیث، ص۳۳۱۔

(۲۹)       تدریب الراوی ۱/۱۷۴۔

(۳۰)      حجة اللہ البالغہ ۱/۱۳۵۔

(۳۱)       ایضاً۔

(۳۲)      ایضاً۔

***

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1‏، جلد: 98 ‏، ربیع الاول 1435 ہجری مطابق جنوری 2014ء